ہم انہیں منالیںگے:اس درویش نے بزرگ کے چہرے کے سکون اور طمانیت کو ایک اچھی فال کے طور پر محسوس کیا لیکن جب اس درویش نے اس سردار کی طرف دیکھا تو ان کی نظروں میں ایک پیغام تھا‘ وہ درویش بولے ان شاء اللہ کام ہوجائے گا۔ کچھ وقت لگے‘ کچھ محنت ہوگی لیکن ہم انہیں منالیں گے کہ یا تو وہ اپنے بیٹے کا قتل معاف کردیں یا پھر اس کا بدلہ مال کی شکل میں یا کسی اور شکل میں ہم سے لے لیں۔
جتنی دولت مانگیں گے دوں گا:یہ الفاظ سنتے ہی سردار ایک دم رونے لگا اور کہنے لگا وہ جو مجھ سے مال مانگیں گے اور جتنی دولت مانگیں گے‘ میں سب دینے کو تیار ہوں لیکن وہ سوفیصد راضی ہوجائیں ‘کہیں ایسا نہ ہو کہ ابھی تو وقتی طور پر میرے بیٹے کو معاف کردیں پھر میری نسلوں سے انتقام لیتے رہیں کیونکہ میں نے جنات کے اور سانپوں کے انتقام کی بے شمار داستانیں سنی ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ معافی ہو اور وہ ادھوری ہو اور نامکمل ہو‘ میں چاہتا ہوں‘ معافی ہو اور پوری ہو اور سوفیصد ہو اور ایسی ہو کہ میری نسلیں بقیہ زندگی نہایت اطمینان اور سکون سے گزارنے والی بن جائیں۔ درویش فرمانے لگے: میں یہ سب کچھ ان سے طے کروں گا اور یہ ساری باتیں میں ان کے ساتھ تفصیل سے کروں گا۔ آئیں ان کے پاس چلتے ہیں:آئیں! ابھی ہی چلتے ہیں ان کے پاس‘ ہم دونوں اٹھے ان کے پیچھے سردار کے کچھ خدام تھے‘ سردار نے اشارے سے انہیں روک دیا‘ وہ وہیں رہ گئے‘ درویش کا ہاتھ تھامے سنگلاخ پہاڑوں پر چلتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے‘ تھوری ہی دیر بڑھے تھے کہ سامنے ایک پتھر کی بڑی سی دیوار آگئی حالانکہ یہاں پتھر کی بڑی دیوار بظاہر ناممکن تھی کیونکہ خشک پہاڑی سلسلہ تاحد نظر پھیلا ہوا اور وہ ناختم ہونے والا سلسلہ تھا‘ کیسے ممکن تھا کہ وہاں دیوار آجائے‘ حیرت تھی‘ وہ درویش ٹھہر گئے۔ انہوں نے دیوار کو تھپتھپایا جیسے دستک دیتے ہیں اور اپنا نام لے کر کہنے لگے: میں فلاں ہوں اور ایک سائل کو لایا ہوں‘ اپنے سردار کو جاکر میری آمد کی اطلاع کریں۔دیوار پھٹی اور راستہ بنا:تھوڑی ہی دیر ہوئی دیوار ایک جگہ سے پھٹی اور راستہ بنا وہ اندر گئے‘ اندر پھر وہی پہاڑ‘ خشک چٹانیں‘ پتھر لیکن ایک احساس ہورہا تھا کہ جیسے سانپوں کی پھنکار ہر طرف سے اور سانپ کہیں نظر نہیں آرہے تھے اور جتنا وہ آگے جارہے تھے‘ سانپوں کی پھنکار بڑھتی چلی جارہی تھی اور آخرکار سامنے ایک پہاڑ اور پہاڑ میں ایک غارنظر آئی ‘ اس غار کے کنارے بہت سارے سانپ کنڈلی مار کر بیٹھےہوئے تھے اور بہت سارے ایسے تھے جنہوں نے اپنے پھن پھیلائے ہوئے تھے۔ درویش کی سردار کو تھپکی:سردار کے اندر خوف پیدا ہوا لیکن درویش بے خوف‘ بے خطر پورے اطمینان کے ساتھ وہاں آگے سے آگے بڑھتے چلے جارہے تھے۔ آخرکار درویش نے سردار کو تھپکی دی اور کہنے لگے: آپ پریشان نہ ہوں‘ یہ بادشاہ کے محافظ ہیں‘ اندر سے ہماری آمد کی اطلاع ہے‘ یہ ہمیں کچھ نہیں کہیں گے‘ صرف غار پر ان کی ذمہ داری ہے کہ یہ اپنی حفاظت کی ڈیوٹی ادا کریں‘ چلتے چلتے غار کے اندر چلے گئے جو غار باہرسے بہت بڑا اور تاریک محسوس ہورہا تھا‘ وہ اندر سے اس سے کہیں بڑا اور روشن‘ روشنی کہاں سےآرہی تھی کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی‘ آخرکار پتہ چلا کہ وہاں قدم قدم پر ایسے سانپ بیٹھے ہیں جن سانپوں کے جسموں سے روشنی نکل رہی‘ پورا غار روشن تھا۔
سردار کے جسم میں خوف‘ سرسراہٹ مسلسل بڑھ رہی تھی لیکن درویش نے ہاتھ میں ہاتھ تھاما ہوا تھا تو کچھ اطمینان اور سکون تھا‘ چلتے چلتے ایک جگہ پہنچے تو وہاں ایک کرسی پر ایک بہت بڑا سانپ بیٹھا تھا جس کے اردگرد بہت سانپ تھے‘ کچھ کنڈلی مارے‘ کچھ پھن پھیلائے‘ کچھ لیٹے‘ کچھ سانپ ایسے تھے جن کے منہ سے آگ نکل رہی تھی اور کچھ سانپ ایسے بھی تھے جن کے منہ سے بخارات نکل رہے تھے اور وہ بخارات ایسے تھے کہ پہاڑ کے پتھر اور چٹان پر پڑتے تو وہاں سے پتھر پگل جاتا تھا۔ گرجدار ‘ خوفناک آواز: جب درویش اور سردار وہاں پہنچے تو ایک آواز اٹھی اور وہ آواز ایسی نامعلوم گرجدار اور خوفناک تھی کہ شاید اگر سردار کے ہاتھ میں
درویش کا ہاتھ نہ ہوتا تو اس کے دماغ کی رگیں پھٹ جاتیں‘ کلیجہ پھٹ جاتا‘ اس کے بعد ایک پردہ ہٹا‘ پھر آگے ایک رستہ نظر آیا‘ اب ایک احساس ہوا کہ اصل شہنشاہ تک ہم نہیں پہنچے بلکہ یہ بھی شہنشاہ کے خادم تھے جو ہر آنے جانے والے کو دیکھ رہے تھے اور مکمل تسلی کررہے تھے کہ کیا یہ شخص ملاقات کی اجازت پاچکا ہے یا نہیں؟ کیونکہ وہاں نقصان کا خوف نہیں تھا کہ کوئی شخص انہیں نقصان پہنچا سکے پھر غار میں آگے بڑھتے گئے۔ وہاں روشنیوں کا رنگ بدل گیا اور بڑھتے بڑھتے وہاں ایک راستہ نظر آیا جو کہ دائیں طرف جارہا تھا اور ایک راستہ سیدھا تھا اب درویش یہاں چند لمحوں کے کے لیے رکے‘ پھر سیدھا چلنا شروع ہوگئے۔ یہ پانی نہیں زہر ہے:سیدھا چلتے چلتے آگے غار میں ایک جگہ سے پانی ٹپک رہا تھا سردار نے کوشش کی اس پانی کے قطرے کو اپنے منہ میں لے لیکن درویش نے انہیں ہٹا دیا اورفرمانے لگے یہ پانی نہیں ہے۔ یہ سانپوں کا اُگلتا ہوا زہر ہے جو کہ ایک نالی اور آبشار کی شکل اختیار کرچکا ہے اگر آپ کے منہ میں ایک قطرہ بھی چلا جاتا‘ اسی لمحے موت واقعہ ہوسکتی تھی۔میرے بیٹے نے آخر سانپ کو کیوں مارا؟: یہ سنتے ہی سردار کے جسم میں سنسناہٹ پھیل گئی اور سردار بار بار دل میں ایک بات کہہ رہےتھے کہ میرے بیٹے نے آخر سانپ کیوں مارا؟ وہ تو سانپ کنویں میں کھیل رہا تھا ایک بل سےنکلتا تھا دوسرے بل میں داخل ہوجاتا تھا اس کا کام تو پانی بھرنا تھا۔شہنشاہ کی طرف چلنے کا اشارہ: آخرکار ایک جگہ درویش رک گئے‘ کچھ لوگ آگئے جن کے سروں پر سرخ رنگ کی پگڑیاں بندھی ہوئی تھیں‘ گلے میں ہیرے جواہرات کی مالائیں تھیں‘ ان کا لباس شاہی تھا‘ ان کا جسم معطر اور جسم سے خوشبو نکل رہی تھی‘ وہ آئے اور شہنشاہ کی طرف چلنے کا اشارہ کیا۔ وہ شہنشاہ کی طرف ان دونوں درویش اور سردار کو لے جارہے تھے آگے بڑھتے بڑھتے ایک جگہ وہ دونوں خدام رک گئے اور ایک نصیحت کہی کہ آپ دونوں میں سے بات کون کرے گا۔ درویش بولے: میں بات کروں گا۔ کہنے لگے: آپ بات کیجئے‘ دوسرا فرد خاموش رہے۔ شہنشاہ کے سامنے:آگے گئے تو ایک بہت بڑا سانپ تھا جس کا سر اونچی غار جو شاید سینکڑوں فٹ اونچی ہو چھت تک لگ رہا تھا اور نیچے اس کی کنڈلی ایسی تھی جیسے خود بہت بڑا پہاڑ ہو‘ اس کے سامنے جاکر کھڑے ہوگئے‘ وہ جنات کے بادشاہ اور سانپوں کے سردار تھے۔ درویش نے دست بستہ ان کےسامنے درخواست کی کہ میں آپ کا مجرم آپ کے سامنے لایا ہوں۔ دو راستے ہیں ایک یہ ہے کہ آپ اس کے بیٹے سے بدلہ لیں اور ایک یہ ہے کہ آپ اپنی عظمت اور اپنے وقار کو سامنے رکھتے ہوئے معافی دلا دیں اور جو تاوان یا دیت بنے گی ہم دیں گے اور ایک اور درخواست بھی ہے کہ آپ اتنی شفقت مزید بھی فرمائیں گے کہ ان کی نسلوں سے پھر کوئی بدلہ نہ لے؟ اور ان کی نسلوں میں حفاظت رہے عافیت رہے اور خیرو برکت رہے۔ہم آپ کے آنے کی لاج رکھتے ہیں:ایک سناٹا تھا‘ خاموشی تھی اور ایسے محسوس ہورہا تھا کہ ابھی کوئی اچانک ہیبت ناک فیصلہ ہوسکتا ہے‘ اسی سناٹے خاموشی میں ایک ایسی آواز آئی جیسے سانپ کی سیٹی ہوتی ہے اور ایک تیز کانوں اور کلیجے کو پھاڑتی ہوئی آواز جس آواز میں یہ الفاظ بنے‘ ہم آپ کے آنے کی لاج رکھتے ہیں اور آپ کے آنے کو عزت دیتے ہیں۔مقتول کے خاندان کی حاضری: ہم دوسرے فریق کو بھی بلاتے ہیں جس کے بیٹے کے ساتھ یہ معاملہ ہوا ہے‘ تھوڑی ہی دیر ہوئی ایک خاندان آیا‘ بوڑھا باپ‘ بوڑھی ماں‘ چند بچے‘ جن کا بیٹا سردار کے بیٹے کے ہاتھوں قتل ہوا تھا‘ درویش نے ان کی منت سماجت کرنی شروع کردی اور ان سے بار بار درخواست کررہے تھے۔ سردار بے بسی کی حالت میں یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے کہ نامعلوم یہ لوگ مانتے ہیں یا نہیں مانتے۔ ان کی چاہت کیا ہے؟ ان کا جذبہ کیا ہے؟ شاید وہ معاف نہ کریں:یہ منت قبول کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔ وہ خاموش بوڑھا بوڑھی یہ باتیں سن رہے تھے اور ایسے محسوس ہورہا تھا کہ وہ معاف نہیں کریں گے‘ اسی اثناء میں شہنشاہ نے اپنی مخصوص آواز میں فرمایا: ہم بھی درویش کی آمد کو عزت دے رہے آپ بھی عزت دیں اور اس کو معاف کردیں اور چاہیں تو مال کا جرمانہ اور دیت لیں اور چاہیں تو وہ بھی معاف کردیں۔ شہنشاہ کی عزت اوروقار سر آنکھوں پر:یہ الفاظ سنتے ہی وہ بوڑھا بوڑھی دونوں رونے لگ گئے اور اپنا سر جھکا دیا۔ بس ان کے منہ سے صرف اتنا لفظ نکلا کہ ہمیں شہنشاہ کی عزت اور وقار سر آنکھوں پر‘ ہم نے اس انسان کو معاف کیا‘ اس کی نسلوں کو معاف کیا‘ کبھی اس انسان اور اس کی نسلوں سے بدلہ نہیں لیں گے اور اپنی نسلوں کو بھی ہم نصیحت کریں گے اور نہ ہی ہم ان سے کوئی دیت لیتے ہیں اور تاوان لیتے ہیں اورنہ ہی مال لیتے ہیں کیونکہ ہم اپنی نسلوں کا خون بہا لے کر وہ مال اپنی نسلوں کو نہیں کھلانا چاہتے۔ وہ اس بات کا مترادف ہوگا کہ ہم اپنی نسلوں کو اور اپنی بیٹی اور بیٹوں کو اپنے بیٹے کا خون
پلارہے ہیں۔ معافی ہوگئی: تھوڑی دیر میں سناٹا رہا‘ اس کے بعد وہ بوڑھا بوڑھی اچانک غائب ہوگئے اور ایک پردہ سامنے آگیا اور شہنشاہ نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ جو شاید اس بات کی دلیل تھی کہ جائیں‘ آپ کی معافی ہوگئی ہے اور آپ اب یہاں سے چلے جائیں۔اب دل میں خوف نہیں تھا: اب یہ حضرات واپس انہی راستوں سے چلتے چلتے غار سے باہر نکلے اور غار سے باہر نکلتے ہی ان کی نظر پھر انہی سانپوں پر پڑی‘ پھر انہی پہرے داروں پر لیکن اب منظر اور تھا اب ان کےدل میں خوف اور خطرہ نہیں تھا بلکہ اطمینان اور سکون تھا اور راحت تھی اور ایک سبق بھی تھا کہ ہر سانپ سانپ نہیں ہوتا بہت سے سانپ جنات بھی ہوتے ہیں۔ یہ واقعہ حیرت انگیز تھا:میں ان کے یہ واقعات بڑی حیرت سے سن رہا تھا سانپ دیکھے بھی سہی اور ان کو زندہ اور مردہ بھی دیکھا لیکن پھر ایک پل میں اللہ کے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہ حدیث مبارکہ ذہن میں آئی جو کہ سانپوں کے بارے میں تھی‘ یہ سارے مناظر میری آنکھوں کے سامنے اور ذہن میں بدلنے اور ابھرنے لگے اس بوڑھےجن (جو سفید سانپ کی شکل میں میرے پاس آیا تھا) کی بات حیرت زدہ اور حیرت ناک تھی‘ میرے جی میں آیا میں ان سے کچھ اور واقعات سنوں اور ان سے کچھ اور باتیں حاصل کروں‘ تجربات سے تجربات نکلتے ہیں اور باتوں سے باتیں لیکن یہ واقعہ ایسا حیرت انگیز بلکہ خوفناک تھا جس نے مجھے بہت سی باتیں سوچنے پر مجبور کردیا اور میرے جی میں بات آئی کہ دنیا میں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ہماری عقل‘ سمجھ‘ احساس اور شعور میں نہیں آتی۔ ہم انہیں عام باتیں سمجھتے ہیں لیکن وہ عام باتیں نہیں ہوتیں بلکہ وہ ایسی باتیں ہوتی ہیں جو کہ سچی حقیقتیں ہوتی ہیں۔ سانپ کے ساتھ ذکر:میں ایک دفعہ مکلی کے قبرستان میں بیٹھا ذکر کررہا تھا میں نے محسوس کیا کہ میرے ساتھ کوئی اور آکر بیٹھ گیا ہے میں ذکر میں ایسا مشغول تھا‘ مجھے احساس تو ہوا لیکن میں مڑ کر نہ دیکھ سکا‘ کئی گھنٹوں کے بعد جب میں ذکر سے فارغ ہوا تو دیکھا تو وہ ایک بہت بڑا سانپ تھا اس نے میری طرف دیکھا اور پھر وہ مڑ کر کسی اور طرف چلا گیا اور سامنے پتھروں کی دیوار تھی اسی کےاندر گم ہوگیا۔ بعد میں مجھے احساس ہوا کہ وہ بھی میرے ساتھ بیٹھا ذکر اور تسبیحات کررہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ذکر کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ہر مخلوق تسبیحات کرتی ہے‘ جنات چاہے سانپ کی شکل میں ہوں یا کسی بھی صورت میں ہوں وہ ذکر تسبیحات اور اعمال کرتے ہیں۔ ہمیں ایک احتیاط کرنی چاہیے کبھی بھی کوئی سانپ ہو تو اسے مارنے سے پہلے تنبیہہ ضرور کرنی چاہیے اور پھر اسے مار دینا چاہیے کیونکہ سانپ کو اور بچھو کو مارنےکا ہی حکم ہے۔ جنات اور سانپوں کےشہنشاہ:مجھے کئی جنات نے ایک بات بتائی جس کا بعض واقعات میں میرا تجربہ بھی ہوا کہ شہنشاہ جنات کبھی اکیلے نہیں چلتے‘ ہمیشہ سانپوں کے قافلےکے ساتھ ہی چلتے ہیں اور بعض اوقات سانپ کے سر پر ہی سوار ہوتے ہیں وہ زمین پر خود نہیں چلتے اور اگر کوئی شخص اس چلتے قافلےکو پتھر بھی مار دے تو وہ زندہ نہیں رہتا‘ ایک پھونک ہی اس بندے کو پگلا دیتی ہے یا وہیں ختم کردیتی ہے۔ ایک صاحب نے چلتے قافلے پر پتھر مارا وہ جوان اور ساتھ ایک بوڑھے جارہے تھے‘ انہیں احساس ہوا اس سے کیا غلطی ہوئی قافلہ وہیں رکا ایک بڑے سانپ پر چھوٹا سانپ سوار تھا اس نے وہیں معافی مانگنا شروع کردیں اور بابا بار بار معافی مانگ رہا تھا اس جوان کو پتہ نہیں آپ معاف کردیں‘ اس معافی مانگنے پر وہ سانپ چلے گئے اور اسےکوئی سزا نہ دی۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں